Arshi khan

Add To collaction

منٹو کے افسانے भाग 3



منٹو کے افسانے 3
پانچواں منظر
(نگار ولا سے ملحقہ باغیچہ۔ ۔ ۔ شام کا وقت۔ فوارے کا پانی کھل کھیل رہا ہے۔ سائے گہرے ہو چکے ہیں۔ پس منظر میں خاکستری پہاڑیاں شام کے دھندلکوں میں سنگینی اختیار کر گئی ہیں۔ آسمان نے ایسا لگتا ہے اپنے بدن پر بھبوت مل لی ہے۔ تختوں کے سینے پر سبزہ خاموش لیٹا ہے۔ کرسیاں خالی ہے۔ ۔ ۔ ساری فضا خالی ہے۔ اس فریم کی طرح جس میں تصویر جڑی جانے والی ہے۔ ۔ ۔ مجید اور سعیدہ کی ہنسی کی آواز آتی ہے۔ ۔ ۔ چند لمحات کے بعد دونوں ہنستے، بڑی مشکل سے اپنی تھکاوٹ کا بوجھ اٹھاتے داخل ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ سعیدہ نڈھال ہو کر خود کو کرسی میں گرٍا دیتی ہے مجید اس کے پاس کھڑا رہتا ہے۔ ) سعیدہ : (رانوں پر مکیاں مارتے ہوئے)اف۔ ۔ ۔ ف! مجید : (ہنستا ہے) آپ تھک گئیں۔ ۔ ۔ دبا دوں آپ کو؟ سعیدہ : (گھبرا کر) نہیں نہیں۔ ۔ ۔ اصغری کو بھیج دیجئے۔ ۔ ۔ مجھ سے تو اب دو قدم بھی چلنا دشوار ہے۔ مجید : (مسکراتا ہے) بہتر۔ ۔ ۔ (آگے بڑھ کر سعیدہ کے چہرے پر نیم سنہرے بالوں کی آوارہ لٹ انگلیوں سے اٹھا کر ایک طرف کر دیتا ہے۔ ) سعیدہ : (بہت زیادہ گھبراہٹ سے) میں جاتی ہوں اندر۔ (اٹھنے لگتی ہے۔ ) مجید : (ایک طرف دیکھ کر) لو، وہ اصغری خود ہی آ گئی۔ ۔ ۔ آؤ، اصغری۔ ۔ ۔ بھابھی جان کے پاؤں دبا دو۔ (اصغری داخل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اس کے ہونٹوں کے اختتامی کونے کپکپا رہے ہیں جیسے کچھ کہنے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ پاس آ جاتی ہے۔ ) اصغری : (سعیدہ سے) دولہن بیگم تھک گئیں آج؟ سعیدہ : (رانوں پر مکیاں مارتے ہوئے) ہاں ! اصغری : (گھاس پر بیٹھ کر، سعیدہ کی ایک پنڈلی دبانا شروع کرتی ہے۔ خطاب مجید سے ہے) یہ سب مجید میاں کا قصور ہے۔ ۔ ۔ اتنی بڑی سیر اور اتنی جلدی۔ ۔ ۔ (لہجے میں تیکھا پن ہے) ہر چیز دھیرے دھیرے ہونی چاہئے (ہولے ہولے دباتی ہے) اس طرح۔ ۔ ۔ ہولے ہولے (سعیدہ سے) کیوں دولہن بیگم۔ ۔ ۔ کچھ آرام محسوس ہوا آپ کو؟ سعیدہ : (دوسری ٹانگ جو اصغری کی گرفت سے آزاد ہے، اضطراب کا شدید مظاہرہ کرتی ہے) ٹھیک ہے، ٹھیک ہے! اصغری : (مجید سے) مجید میاں، آپ جائیں۔ ۔ ۔ منہ ہاتھ دھو آئیں۔ ۔ ۔ گردو غبار سے آپ کا چہرہ بالکل ان دھویا آلو بنا ہوا ہے۔ مجید : (تیزی سے) تم بہت گستاخ ہو گئی ہو۔ ۔ ۔ یہ سب۔ ۔ ۔ اصغری : (مجید کی بات کاٹ کر) دولہن بیگم کا قصور ہیں جنھوں نے مجھے منہ لگا لیا ہے (سعیدہ کے چہرے کی طرف دیکھ کر) ایسا خوبصورت منہ! (مجید نگاہوں ہی نگاہوں میں غصہ برساتا چلا جاتا ہے۔ ) اصغری : (ہنستی ہے) مجید میاں کی شکل و صورت یوں تو ماشاء اللہ بڑی اچھی ہے۔ ۔ ۔ مگر غصے میں ہمیشہ بگڑ جاتی ہے۔ ۔ ۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ سعیدہ :تم مجھ سے ایسی باتیں نہ کیا کرو (اٹھا چاہتی ہے مگر اصغری کی مضبوط گرفت کے باعث نہیں اٹھ سکتی) چھوڑ دو مجھے۔ اصغری : (دباتے ہوئے) میں اس خدمت سے خود کو چھڑانا نہیں چاہتی (سعیدہ کے پاؤں سے سینڈل اتارتی ہے) مجید میاں کہہ رہے تھے، میں گستاخ ہو گئی ہوں۔ ۔ ۔ کیا یہ درست ہے دولہن بیگم۔ سعیدہ :بالکل درست ہے۔ اصغری : (بڑے اطمینان سے سعیدہ کے پاؤں کی انگلیاں چٹخاتے ہوئے) تو یہ بہت بری بات ہے۔ ۔ ۔ نوکرانی کو گستاخ کبھی نہیں ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ آپ میرے کان کھینچئے۔ سعیدہ :خاموش رہو! اصغری :یہ ظلم ہے۔ ۔ ۔ زبان بندی بہت بڑا ظلم ہے دولہن بیگم۔ ۔ ۔ میں نے ایسی کونسی بات کی جو آپ کونا گوار گزری۔ سعیدہ : (اضطراب کے ساتھ) تمہاری سب باتیں مجھے ناگوار گزرتی ہیں۔ اصغری :اصغری بے چاری اب کیا کرے۔ ۔ ۔ (توقف کے بعد) میں تو یہ سمجھتی تھی کہ آپ جیسی لکھی پڑھی بیگم کی نوکری میں اس ایک برس کے اندر اندر ہی مجھے سب کچھ آ گیا ہے۔ ۔ ۔ پر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط سمجھی تھی۔ ۔ ۔ میں نے آپ سے کچھ بھی نہیں سیکھا؟۔ ۔ ۔ لیکن یہ کس کا قصور ہے ؟سیکھنے والے کایا سکھانے والے کا؟ سعیدہ : (اپنی دونوں ٹانگیں ایک طرف سمیٹتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں) تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ اصغری : (مصنوعی حیرت سے) میں ؟ سعیدہ :ہاں تم۔ ۔ ۔ کیا کہنا چاہتی ہو تم؟ اصغری : (سوچتے ہوئے) کہنے کو تومیں بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ۔ ۔ سعیدہ : (اٹھ کر ننگے پاؤں گھاس پر چلتے ہوئے) تو کہہ ڈالو آج۔ ۔ ۔ مجھے تمہاری ہر روز کی مہین مہین چٹکیاں پسند نہیں۔ ۔ ۔ جو تم کہنا چاہتی ہو، میں سننے کے لئے تیار ہوں۔ اصغری :آپ بڑی ہمت والی ہیں دولہن بیگم۔ سعیدہ :میں ہمت والی ہوں، یا بزدل ہوں، تم اسے چھوڑو۔ ۔ ۔ جو کہنا چاہتی ہو آج اگل ڈالو۔ اصغری :یہ قے آپ کو اور مجھے دونوں کو تکلیف دے گی۔ سعیدہ :میری تکلیف کا تم کچھ خیال نہ کرو۔ ۔ ۔ میں برداشت کر لوں گی۔ اصغری : (سوچتے ہوئے) میں سمجھی تھی۔ میرے دانتوں تلے دبی ہوئی کٹاری دیکھ کر آپ ڈر جائیں گی۔ پر اب ایسا لگتا ہے کہ آپ چلتی چلتی ایسی جگہ پہنچ گئی ہیں جہاں زخموں کی کوئی پروا نہیں رہتی۔ ۔ ۔ اب تو مجھے خوف آنے لگا ہے آپ سے۔ سعیدہ : (اضطراب میں ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے) اصغری! اصغری : (چونک کر) جی؟ سعیدہ :تم مجھے یہ بتاؤ۔ ۔ ۔ اگر امجد میاں گاڑی کے حادثے میں مر جاتے تو میں کیا کرتی؟ اصغری :آپ؟۔ ۔ ۔ مجھے معلوم نہیں آپ کیا کرتیں۔ سعیدہ :میں جوان ہوں، خوبصورت ہوں۔ ۔ ۔ میرے سینے میں ایسے ہزاروں ارمان ہیں جو میں سترہ برس تک اپنے خیالوں کا شہد پلا پلا کر پالتی پوستی رہی ہوں۔ ۔ ۔ میں ان کا گلا نہیں گھونٹ سکتی۔ ۔ ۔ میں نے بہت کوشش کی ہے اصغری۔ ۔ ۔ میرا خدا جانتا ہے، میں نے بہت کوشش کی ہے، لیکن میں اپنے ہاتھوں کو اس قتل پر آمادہ نہیں کر سکی۔ ۔ ۔ تم مجھے کمزور کہہ لو۔ ۔ ۔ بزدل کہہ لو۔ ۔ ۔ اخلاق باختہ کہہ لو۔ ۔ ۔ تم ایک نوکرانی ہو۔ ۔ ۔ میں تمہارے سامنے اعتراف کرتی ہوں کہ میں اپنی جوانی کا باغ، جس کے پتے پتے، بوٹے بوٹے میں میرے کنوارے ارمانوں کا گر م گرم خون دوڑ رہا ہے، اپنے ہاتھوں سے نہیں اجاڑ سکتی۔ ۔ ۔ ویسے میں کسی کو بھی اجازت دے سکتی ہوں کہ وہ میری آنکھیں بند کر کے۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ میرے تمام حواس میں تالے لگا کر بڑھاپے اور رنڈاپے کی عمیق ترین گہرائیوں میں اتار دے۔ ۔ ۔ یا ایک ہی بار دھکا دے کر مجھے اپنے ارمانوں کی لرزتی ہوئی چٹانوں کی چوٹیوں پرسے نیچے گرا دے، جن پر میں اس وقت تک دامن سمیٹے تند ہواؤں کا مقابلہ کرتی رہی ہوں۔ ۔ ۔ میں تم کو بھی اس کی اجازت دیتی ہوں۔ اصغری : (شکست خوردہ اٹھتی ہے) بس دولہن بیگم۔ سعیدہ :میں ایک ایسے دورا ہے پر کھڑی ہوں اصغری، جہاں زمین میرے قدموں کے نیچے گھوم رہی ہے۔ میں جس راستے کی طرف منہ کرتی ہوں وہی مجھ سے منہ موڑ لیتا ہے۔ ۔ ۔ میں جو ارادہ کرتی ہوں، مجھ سے اپنا دامن چھڑا کے بھاگ جاتا ہے۔ میں اس کے پیچھے بھاگتی ہوں۔ ۔ ۔ اندھا دھند دوڑتی ہوں اور جب اسے پکڑ لیتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریت کا بنا تھا۔ میرے پکڑتے پکڑتے ہی ڈھیر ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ اصغری تم نہیں جانتی ہو، میں کتنی دیر سے انگاروں کے بستر پر لوٹ رہی ہوں۔ بجھانے کے لئے میں ان پر پانی ڈالتی ہوں تو بھاپ کے ایسے بگولے اٹھتے ہیں جو مجھے اپنے ساتھ اونچائیوں میں لے جاتے ہیں اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ایک دم نیچے دے پٹکتے ہیں۔ ۔ ۔ میری ہڈی ہڈی، پسلی پسلی چور ہو چکی ہے اصغری۔ ۔ ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر امجد صاحب کے بدلے میں اپاہج ہوئی ہوئی۔ (طویل وقفہ۔ ۔ ۔ اصغری خاموش کھڑی رہتی ہے۔ ۔ ۔ سعیدہ اضطراب میں ادھر ادھر ٹہلتی رہتی ہے۔ ) سعیدہ :بتاؤ، مجھے کیا کرنا چاہئے۔ اصغری : (محویت کے عالم سے بیدار ہوتی ہے)کیا کرنا چاہئے ؟۔ ۔ ۔ آپ کو۔ ۔ ۔ آپ کو امجد میاں کی موت کا انتظار کرنا چاہئے۔ سعیدہ : (کچھ دیر سوچ کر)تم مجھے انتہا درجے کی سنگدل کہو گی۔ ۔ ۔ لیکن میں پوچھتی ہوں۔ ۔ ۔ انھیں کب موت آئے گی۔ اصغری :جب اللہ میاں کو منظور ہو گا(بڑبڑاتی ہے) لیکن امجد میاں کی دوستی تو ان سے ختم ہو چکی ہے۔ سعیدہ :کیا کہا؟ اصغری :جی، کچھ نہیں۔ (اکھڑے اکھڑے قدم اٹھاتی اصغری چلی جاتی ہے۔ ۔ ۔ سعیدہ ننگے پاؤں گھاس کے ٹھنڈے ٹھنڈے فرش پر اضطراب کی حالت میں ٹہلتی رہتی ہے۔ ) ۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔



   1
0 Comments